امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام کے شمال مغربی ادلب صوبہ میں مشتبہ
کیمیائی حملہ کے سلسلے میں حملہ کی مذمت کے موضوع پر اقوا م متحدہ کی
سلامتی کونسل کی میٹنگ میں تجویز پیش کی ہے، جس پر آج ووٹ ڈالے جا سکتے
ہیں۔ تینوں ممالک نے اس حملے کیلئے شام کے صدر بشار الاسد کی فوج کو
قصوروار قرار دیا ہے۔ اس حملہ میں اب تک 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکےہیں
جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔ اس حملے سے 400 دیگر لوگوں کو سانس لینے میں
دشواری ہو رہی ہے۔ تاہم شامی فوج نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار
کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرے گی۔
اقوام متحدہ اور شام میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے اسٹیفن ڈی مستورا نے
کہا کہ بھیانک فضائی حملہ کیا گیا۔
وہیں، اس سے قبل، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے نامہ نگاروں سے
کہا کہ شام میں کل ہوئے کیمیائی حملے کے سلسلے میں ہم لوگ فکرمند ہیں، اس
لئے سلامتی کونسل کی ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس حملے میں
جنوبی ادلب کے خان شیخون کے اطراف کے گاؤں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ شام میں
کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے
مطابق شمال مغربی علاقے خان شیخون پر یہ حملہ یا تو شامی حکومت نے کیا
ہے
یا روسی طیاروں نے، جس کے بعد لوگوں کی سانسیں رکنے لگیں۔ مقامی کارکنان
اور چند ویب سائٹوں پر تصاویر بھی شائع ہوئیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
کئی افراد کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی۔ طبی عملے اور سرگرم کارکنوں کا
کہنا ہے کہ جنگی جہازوں نے حملے کا نشانہ بننے والے افراد کو علاج معالجہ
کرنے والے مقامی کلینکس کو بھی نشانہ بنایا۔شامی فوج کے ذرائع نے حکومت کی
جانب سے ایسے کسی بھی ہتھیار کے استعمال کی تردید کی ہے۔ جبکہ روسی وزیر
دفاع کا اصرار ہے کہ اس علاقے میں کوئی فضائی کارروائی نہیں کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے جن میں سے کم از
کم نو بچے بھی شامل ہیں۔ حزب اختلاف کے حمایتی ادارے ادلب میڈیا سینٹر نے
تصاویر جاری کی ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگوں کا علاج ہوتے ہوئے دیکھا جا
سکتا ہے اور ان تصاویر میں سات بچوں کی لاشیں بھی نظر آ رہی ہیں۔ لیکن ان
تصاویر کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔ یاد رہے کہ شامی حکومت نے مسلسل اس الزام
کی تردید کی ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرتی رہی ہے۔ لیکن اقوام
متحدہ اور تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار نے پچھلے سال اکتوبر میں
تحقیق کے بعد کہا تھا کہ شامی حکومت نے 2014 سے 2015 کے درمیان کم از کم
تین دفعہ کلورین کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔